Author Topic: حضرت خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم  (Read 1830 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
حضرت خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

از  صدائے  سکن  عشق  ندیدم  خوشتر
یاد گارے  کہ  دریں گنبد  دوار   Ø¨Ù…اند

خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سرے سے دو باتیں یا دو عنوان ہیں ہی نہیں کہ ان Ú©Û’ درمیان تعلق یا تعلق Ú©ÛŒ نوعیت پر گفتگو Ú©ÛŒ جائے۔ خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’  جس بلند  مقام پر  فائز  تھے  وہ لفظ "اور" کا بوجھ بھی برداشت نہیں کرتا۔ وہ خود عشق رسول علیہ الصلوۃ والسلام تھے یوم الست سے ان کا خمیر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھایا گیا تھا۔
خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ کا عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Û’ بغیر تصور اسی طرح ناممکن ہے جس طرح عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ دلفریب داستان آخرین دور Ú©Û’ اس منفرد محب اور عاشق Ú©Û’ ذکر Ú©Û’ بغیر نامکمل ہے۔  برصغیر پاک Ùˆ ہند میں عیار انگریز Ú©ÛŒ ساری کدوکاوش جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Ùˆ کمزور کرنے اور  اسے کجلانے پر مرکوز رہی اور اسے یک گونہ کامیابی بھی ہوئی مگر اسے نگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان سمجھنا چاہیے کہ اس Ù†Û’ بالکل غیر متوقع طور پر خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ ایسے چند باکمال لوگ پیدا کر دیے جنہوں Ù†Û’ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ سے Ù„Û’ کر جامی علیہ الرحمتہ تک تمام اہل محبت Ú©Û’ نغمات Ú©Ùˆ اس انداز میں دہرایا کہ برصغیر Ú©Û’ مسلمانوں Ú©ÛŒ بیمار روحوں میں نئی زندگی تازگی اور حرارت پیدا ہو گئی۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ہر دور Ú©Û’ مسلم مفکرین Ù†Û’ مسلمان قوم Ú©ÛŒ زبوں حالی انحطاط اور زوال Ú©Û’ علاج Ú©Û’ لئے فکرو سوچ Ú©ÛŒ ہمیشہ  ایک ہی راہ اختیار Ú©ÛŒ ہے اور وہ ہے محبوب ازل سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام Ú©ÛŒ ذات اقدس سے رشتہ غلامی Ú©ÛŒ  از سر نو تجدید یعنی
Image
 Ø¨Û مصطفے برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
 Image
    حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ Ù†Û’ ملت اسلامیہ Ú©Ùˆ عشق Ùˆ محبت کا درس دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ Ù†Û’ عشق Ùˆ محبت نبوی صلی اللہ علیہ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آپ علیہ الرحمتہ حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا پیکر تھے جس Ú©ÛŒ ہر تار ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑی ہوئی تھی۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی' اسم گرامی آتا تو آپ یوں تڑپ اٹھتے جیسے بے خبری میں کسی Ù†Û’ ہتھیلی پر انگارہ رکھ دیا ہو۔
آپ علیہ الرحمتہ کی اس دعوت اور آواز میں آپ علیہ الرحمتہ کا خون جگر شامل تھا یہ آواز سرا سر حال ہونے کی بنا پر اپنی دلکشی' رعنائی' انفرادیت' اور نرالی ادا کی ایک ایسی پکار تھی جس نے اہل دل تو اپنی جگہ رہے سخت سے سخت دلوں کے بھی تار ہلا دیئے۔ یہ آواز غافل روحوں اور بے چین دلوں کے درد کا درماں ثابت ہوئی۔
ماضی قریب میں برصغیر میں بڑے بڑے نامور اور جادو بیاں خطیب ہو کر گزرے ہیں۔ مثلاً عطاء اللہ شاہ بخاری بلاشبہ اردو زبان Ú©Û’ بہت بڑے خطیب تھے عرصہ دراز تک متحدہ ہندوستان کا کونہ کونہ ان Ú©Û’ سحر انگیز خطابات سے گونجتا رہا مگر انصاف Ú©ÛŒ بات یہ ہے کہ انہیں خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ ایسے متبع سنت' شب بیدار اور پیکر محبت Ú©Û’ نالوں سے قطعاً کوئی نسبت نہیں ہے وہ الفاظ Ú©ÛŒ جادوگری اور آواز Ú©ÛŒ سحر انگیزی تھی جبکہ خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ Ù†Û’ نصف صدی تک منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درد Ùˆ فراق Ú©Û’ ایسے نغمات چھیڑے جن سے انسان تو انسان چرند پرند اور درودیوار بھی وجد میں آکر موم Ú©ÛŒ طرح Ù¾Ú¯Ú¾Ù„ اٹھے۔ خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ  Ú©ÛŒ آواز وہ الستی آواز تھی جو ابن الفارض سے Ù„Û’ کر بلہے شاہ رحمتہ اللہ علیہ ' شاہ حسین رحمتہ اللہ علیہ' سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ'عبدالطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ اور خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ کا مشترک سرمایہ ہے ۔یہی وہ آواز ہے جس Ù†Û’ بلا امتیاز مذہب Ùˆ ملت تمام انسانوں Ú©Û’ دل Ú©Û’ تار چھیڑے' اس آواز میں ذات حقیقی سے انسان Ú©Û’ تعلق اور نفس شناسی Ú©Û’ علاوہ انسانی دکھ درد غم اور خوشی اور دوسرے واردات Ú©Ùˆ اس انداز میں سمویا گیا ہے کہ ہر انسان Ù†Û’ اسے اپنی ترجمانی سمجھا ہے ان Ú©ÛŒ بات  'از دل خیزد Ùˆ بردل ریزد' Ú©ÛŒ تھی
حضرت خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک و تبلیغ کے لئے تین راستے اختیار کئے وعظ و تقاریر' شعر و شاعری اور عملی نمونہ پیش کرنا۔
آپ علیہ الرحمتہ کے وعظ و تقاریر روایتی انداز کے برعکس اپنے اند جزب و مستی' حدت عشق' رموز عشق اور ہر بات کے واقعاتی منظر کا ایک ایسا منفرد انداز رکھتے تھے جس کی نظیر دور دور تک نہیں ملتی۔ پچاس پچاس ہزار کا مجمع ہے مگر رات کے سمے میں جونہی محمد عربی علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ سچا عاشق
Image
 Ø³ÛŒØ¯ Ùˆ سرور محمد نور جاں  '  بہتر Ùˆ مہتر شفیع مجرماں
 Image
کی دلکش صدا بلند کرتا تو واقعہ یہ ہے کہ کسی کو تن من کی خبر نہ رہتی بعض اوقات چشم زدن رات کے چار پہر گزر جاتے اور اچانک اس محفل میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے صبح آن دھمکتی۔
میرے والد گرامی راس الاصفیا حضرت سید مغفور القادری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے " کہ ایک ایسی ہی محفل میں جب مقام محمدیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ  Ù†Û’ علم Ùˆ عرفان کا ترانہ چھیڑا تو میں Ù†Û’ دیکھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی ایسے جید عالم دین Ú©ÛŒ روتے روتے داڑھی آنسووں سے تر ہو Ú†Ú©ÛŒ تھی۔
علم سے عقل Ùˆ خرد Ú©Ùˆ تو لاجواب یا مسحور کیا جاسکتا ہے  مگر بے چین روحوں' مضطرب قلوب اور Ø´Ú©ÙˆÚ© Ùˆ شبہات میں گرفتار سینوں Ú©Ùˆ یقین Ùˆ معرفت کا نور عطا نہیں کیا جاسکتا اس Ú©Û’ لئے اس نگاہ Ú©ÛŒ ضرورت ہے جس Ú©Û’ بارے میں حضرت اقبال علیہ الرحمتہ Ù†Û’ فریایا ہے
 Image
 ÙÙ‚Ø· نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
 Image
بلا شبہ خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ کو قدرت نے پوری فیاضی سے یہ نگاہ عطا کی تھی۔ آپ علیہ الرحمتہ نے آبائی علاقے کے علاوہ لاہور' امرتسر' جالندھر' فیروز پور پٹیالہ' لدھیانہ کے علاقوں کو اپنی تبلیغ اور رشد کا مرکز بنایا ان علاقوں میں ہزاروں لوگوں نے آپ علیہ الرحمتہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
ایک محفل میں آپ علیہ الرحمتہ کو فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی موجودگی میں منبر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بٹھایا گیا ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس سے بڑی خواہش اور کیا ہو سکتی ہے کہ سامنے بھی اپنے وقت کا نامور عالم' شیخ طریقت اور بلند مرتبہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جو علم و معرفت کی تمام لطافتووں اور باریکیوں کو نہ صرف سمجھتا ہو بلکہ خود اس راہ کا راہی ہو ' خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا مخصوص خطبہ شروع کیا تو فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ نے اٹھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا اور فرمایا " سر آمد وافطین پنجاب" سوئے اتفاق مسلسل سفر اور وعظ و تقاریر کی وجہ سے آپ علیہ الرحمتہ کا گلا جواب دے گیا اور خطبے سے آگے آپ علیہ الرحمتہ ایک لفظ نہ کہ سکے مگر آپ علیہ الرحمتہ کو ساری عمر اس کا افسوس رہا۔
راقم السطور Ú©Û’ والد گرامی حضرت شاہ مغفور القادری رحمتہ اللہ علیہ  Ù†Û’ ایک دفعہ فرمایا کہ خواجہ محمد یار فریدی علیہ الرحمتہ Ú©ÛŒ کوئی ایسی بات نہ ہوتی جس Ú©Û’ لئے کتاب Ùˆ سنت میں مضبوط دلیل موجود نہ ہو۔ ان Ú©Û’ مطابق دوران وعظ آپ علیہ الرحتہ  پر علم Ùˆ معرفت Ú©ÛŒ ایسی پلٹ ہوتی جسے آمدکی بجائے واردات غیبی یا فیضان الہٰی کہنا زیادہ صحیح ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر محبت رسول علیہ الصلوۃ والسلام ہے کیا؟ میرے ناقص خیال میں بہترین انسانی اخلاق و مکارم' محاسن و فضائل اور اعلیٰ اوصاف وا اطوار ہی وہ چیزیں ہیں جنہیں ہر دور میں پوجا گیا ہے۔ ان کی نشرو اشاعت کی گئی ہے اور کی جانی چاہیے۔
شہادت گہ عالم میں سروردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ انسانی اوصاف و مکارم اور محامد و محاسن کا ایک ایسا کامل نمونہ ہیں جن کی نظیر تاریخ آج تک پیش نہیں کر سکی؛ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات گرامی سے محبت دراصل ان اوصاف جمیلہ اور اخلاق عالیہ سے محبت ہے جس کی دانشوران عالم ابتدائے آفرینش سے آرزو کرتے آئے ہیں۔
میرے نزدیک محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت عظمٰی عطا ہی اسے کی جاتی ہے جو عام انسانوں سے اپنے ذوق و فکر اور کردار عمل سے بدرجہ ممتاز اور بلند ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جنہیں یہ نعمت عطا ہوتی ہے وہ اتباعِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فکر و عمل کا ا یسا مینارہ نور ہوتے ہیں جن سے ہر دور کے انسان روشنی حاصل کرتے رہتے ہیں۔
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ انتہائی متواضع' منکسر المزاج' دردمند دل اور گداز قلب کے مالک تھے' زندگی میں شاید ہی کوئی شخص ان سے رنجیدہ خاطر ہوا ہو' وہ دوسروں کو رنج پہنچانے یا کسی کا دل دکھانے کے مفہوم سے نا آشنا تھے۔
راقم السطور Ú©Û’ جد امجد شیخ المشائخ سید سردار احمد قادری رحمتہ اللہ علیہ تین سال سے مدینہ منورہ میں قیام پزیر تھے۔ آپ مولانا عبدالباقی لکھنوی ثم المدنی سے دورہ حدیث اور فصوص الحکم Ú©ÛŒ تکمیل کر رہے تھےکہ اس دوران ایک دفعہ آپ علیہ الرحمتہ Ù†Û’ خواب میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ زیارت فرمائی۔ آپ علیہ الرحمتہ Ù†Û’ دیکھا کہ ایک انتہائی باوقار محفل میں ہزاروں لوگ حسب مراتب دم بخود بیٹھے ہیں اتنے میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Û’ اشارے سے خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ اٹھے اور آپ علیہ الرحمتہ Ù†Û’ مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ  Ú©ÛŒ نعت Ú©Û’ یہ مصرعے انتہائی پر سوز آواز میں Ù¾Ú‘Ú¾Û’Û”
Image
 Ùˆ صلی  اللہ  علی  نور  کز Ùˆ  شد  ہا   Ù¾ÛŒØ¯Ø§
زمیں از حب او ساکن فلک در عشق او شیدا
Image
جب آپ علیہ الرحمتہ اس مصرعے پر پہنچے
 Image
  محمد  احمد  Ùˆ محمود  ÙˆÛ’ را خالقش  بستود
 Ø§Ø²Ùˆ شد  بود  ھر موجود  از Ùˆ شد دیدہ  ہا  بینا
Image
تو وجد میں آکر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور گر کر تڑپنے لگے۔
میرے جد امجد نے مدینہ منورہ سے خط میں اپنے صاحبزادے (میرے والد گرامی) کو لکھا کہ خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں جا کر انہیں مبارک باد پیش کریں اور میرا سلام پیش کریں۔ والد گرامی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جونہی سلام پہنچایا خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف سر کے بل رینگنے لگے' آنکھوں سے آنسووں کی لڑیاں جاری ہو گئیں اور زبان پر یہ لفظ تھے" وعلیکم السلام میرے حضور وعلیکم السلام میرے حضور"۔
خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کی گفتگو' خامشی' اوڑھنا' بچھونا' نشست' برخاست' نظم' نثر' رات' دن' صبح و شام' خواب و خیال سب کا مرکز و محور موضوع اور عنوان صرف اور صرف ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔ انہوں نے اس عنوان میں اپنے آپ کو اس طرح مٹایا اور جذب کیا کہ عنوان اور معنون میں دوئی کا فرق مٹ گیا گویا
Image
 Ø§Ù†Ø§   Ù…Ù†   Ø§Ú¾ÙˆÛŒ'   ÙˆÙ…Ù†   Ø§Ú¾ÙˆÛŒ  انا
نحن       Ø±ÙˆØ­Ø§Ù†      حللنا      بدنا
مادو    جانے   Ø§Ù“مدہ   Ø¯Ø±ÛŒÚ©    بدن
من   Ú©ÛŒÙ…   Ù„یلیٰ   Ùˆ  لیلیٰ  کیست من
 Image
انہوں نے خود بھی اس طرح اشارہ کیا
Image
 Ù…Ù¹Û’ Ú©Ú†Ú¾ ایسے کہ مٹ مٹ Ú©Û’  بے نشاں ہوئے
 ÛŒÛ         Ù…ٹنا      ہمارا        نشان     ÛŒØ§Ø±     Ø±ÛØ§
Image
وہ اپنی زندگی کے وظیفہ حیات سے متعلق خود فرماتے ہیں۔
 Ø§Ø­Ø¯  نال احمد  ملیندیں  گزر  گئی              Ù…حمد  محمد  پکیندیں  گزر گئی
ذرا اس شعر کی معنویت اور بلاغت دیکھئے۔
  محمد Ú©ÙˆÚº ڈہڈیں ڈکھیندیں گزر گئی           Ø®Ø¯Ø§ Ú©ÙˆÚº ڈٹھوسے محمد دے اولے
 Image
بعض نیم خواندہ یا دنیائے انسانیت Ú©Û’ مفکرین Ú©ÛŒ تلاش حقیقت Ú©ÛŒ داستان سے بے خبر لوگ وحدۃ الوجود پر برس پڑتے ہیں حیرت ہے کہ اگر وجود ایک نہیں ہے تو کیا وجود دو  ہیں؟ اگر خدانخواستہ دو ہیں تو یہ شرک ہے۔
خیال  رہے کہ وحدۃ الوجود کا تصور ہی وہ محفوظ راستہ ہے جس پر حقیقت کبریٰ Ú©ÛŒ معرفت Ú©Û’ سلسلے میں عقلی اور فکری طور پر Ú©Ù… سے Ú©Ù… اعتراض وارد ہوتے ہیں اس Ú©Û’ علاوہ انسان اپنے محدود فکر میں سوچ Ú©ÛŒ جو بھی راہ اختیار کرے گا اس پر اتنے شدید اعتراض وارد ہوتے ہیں کہ کسی طرح بات بنتی نہیں۔
پھیر یہی وحدت کا وہ تصور ہے جو الخلق عیال اللہ ( مخلوق اللہ کا کنبہ ہے) کا نظریہ پیش کر Ú©Û’ انسانوں میں نسل' وطنی اور دوسری تمام تفریقیں مٹاتا ہے اور یہاں پہنچ کر انسان اپنے بھائی بند (انسان) تو درکنار جانوروں' پرندوں' بلکہ نباتات اور جمادات سے بھی محبت کرنے لگتا ہے۔ خواجہ محمد یاررحمتہ اللہ علیہ  اپنے تمام پیشرو صوفیاء Ú©ÛŒ تقلید میں اسی مسلک محبت اور مشرب عشق Ú©Û’ علمبردار ہیں۔ خود فرماتے ہیں۔
 Image
 Ù…ذاہب   Ø¯Û’  جھگڑے  اساں  Ú†Ú¾ÙˆÚ‘  بیٹھے
محبت   Ø¯Ø§  جھگڑا   Ú†Ú¾Ú‘ا  کوئی  نئی  سگدا
 Image
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
 Image
 Ù…اراں    کھاویں     Ù…ار      نہ     Ø§Ù“ویں
بنٹر کھلیں  دا  Ú©Ú¾ÙˆÚ‘ تاں توں ہک تھیویں
ہک   Ø¯Û’    سانگے    ہک   Ø¯Û’  کتے
ہر   Ø¯ÛŒ  جتی  جوڑ تاں توں ہک تھیویں
 Image
اس حقیقت کا زیادہ واضح اظہار اس طرح فرماتے ہیں۔
 Image
زمانہ  چھان  مارا  نیک  Ùˆ  بد Ú©Ùˆ  غور  سے دیکھا
ہر  اک    Ø´Û’  میں  حقیقت کا  پتہ  معلوم  ہوتا ہے
 Image
خواجہ محمد یاررحمتہ اللہ علیہ ایک ایسے محب اور عاشق ہیں جو بیک وقت درد و فراق' ہجر و وصال' بے قرار و شاد کام یعنی راہ محبت کی تمام منزلوں پر برابر فائز ہیں وہ راہ حقیقت میں کسی ایک منزل پر نہ ٹھہرے ہیں اور نہ ان کے ہاں کسی منزل کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ میرے ناقص خیال میں یہ درد و محبت کا ایسا بلند مقام ہے جسے اس راہ کی معراج سمجھنا چاہئے۔ میں اس کی مثال اس طرح پیش کروں گا۔ فرماتے ہیں
 Image
عمر گزاریم کھپدیں جکھدیں'  سڑدیں بلدیں دکھدیں دکھدیں
 Image
یا
 Image
 Ø¯Ù„ ÙˆÚ† درد ہزار مدتاں بیت گیاں
 Image
اسی مضمون کو زیادہ وضاحت سے اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
 Image
    ÚˆÚ©Ú¾   Ø¯Ø±Ø¯ ÙˆÚ† لاچار ہاں ' بےکار زار نزار  ہاں Ù“
 ÛØ± دم  تتی  بیمار ہاں' Ú¯Ú¾Ù† دوا ایویں ونج تے آ   
 Image
اب ذرا درد فراق اور ہجر و بعد میں تڑپنے والے عاشق زار کی کامیابی و کامرانی اور وصال کی شاد کامی کا یہ انداز ملاحظہ فرمائیے۔
 Image
 Ú©Ù†Ø§Ø± یار سے نکلا نہیں محمد یار ' جہاں رہا وہ محمد سے ہمکنار رہا
 Image
راقم السطور Ú©Û’ نزدیک خواجہ محمد یاررحمتہ اللہ علیہ  فلسفہ وحدۃ الوجود Ú©Û’ صرف شارح اور مفسر نہیں ہیں اس  Ú©Û’ عملی معلم اور پیکر ہیں ' جب وجود ہے ہی ایک تو ظاہر ہے کہ اس Ú©Û’ سوا کا تصور ہی عنقا ہے۔ اب یہی وجود محب بھی ہے محبوب بھی' طالب بھی ہے مطلوب بھی' وہ ظاہری اشکال Ùˆ اجسام Ú©Ùˆ وجود حقیقی Ú©Û’ پر تو  یا عکس سے قطعاً Ú©Ú†Ú¾ اور نہیں سمجھتے یہی وجود ان Ú©Û’ ہاں محمد (قابل تعریف یا لائق حمد ) ہے' یوں بھی اگر اس نظریے Ú©Ùˆ زرا وسیع پس منظر میں دیکھیں تو تمام اکابر صوفیاء Ú©Û’ نزدیک حقیقت محمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام  ہی وہ حقیقت الحقائق ہے جسے انہوں Ù†Û’ النفس الکائنہ قلم الاعلیٰ نور الانوار انسان کامل Ú©Û’ عنوانات سے یاد کیا ہے' فرماتے ہیں
 Image
 Ø§Ù„لہ    ام   Ùˆ  Ú¾Ù…   Ø¨Ù†Ø¯Û  من  غیر  نمی    دانم
مسجودم    Ùˆ  ا فگندہ   Ù…Ù†    غیر  نمی   Ø¯Ø§Ù†Ù…
ہم  خالق   Ùˆ  مخلوقم  ہم  رازق   Ùˆ   Ù…رزوقم
مطلوبیم     Ø¬ÙˆÛŒÙ†Ø¯Û     Ù…Ù†   ØºÛŒØ±   Ù†Ù…ÛŒ     Ø¯Ø§Ù†Ù…
خود  ساجد   Ùˆ  مسجود   Ø®ÙˆØ¯  عابد   Ù…عبودم
خود   Ø´ÛŒØ®   Ø´Ù†Ø§Ø³Ù†Ø¯Û    من   ØºÛŒØ±   Ù†Ù…ÛŒ   Ø¯Ø§Ù†Ù…
 Image
میں قارئین کی توجہ ایک بظاہر معمولی مگر بڑی اہم بات کی طرف مبذول کراتے ہوئے بنام خدا انصاف طلب کرتا ہوں۔
خواجہ محمد یاررحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش، نشوونما تعلیم و تربیت تمام تر آبائی علاقے یعنی سابق ریاست بہاولپور کے علاقے میں ہوئی۔ انہوں نے دلی' لکھنو' یا ملک کے دوسرے بڑے علمی یا فکری مراکز کی شکل بھی نہیں دیکھی لیکن جب وہ مسند و وعظ یا دنیائے شعر و ادب میں آتے ہیں تو نہ صرف برصغیر بلکہ عالم اسلام کے جلیل القدر علماء' شعراء اور خطباء کے ساتھ صف بصف نظر آتے ہیں
"سراسر وہبی چیز نہیں تو اور کیا ہے؟"
یوں تو خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ دنیائے شعرو ادب میں بالکل الگ اسلوب Ú©Û’ مالک ہیں ان Ú©Û’ ہاں وحدۃ الوجود پھر  اس وجود Ú©Û’ ظہور یا تجلیات Ú©Û’ مواد یعنی سرورعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم' اہل بیت' صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین' اولیاءاللہ' مدینہ منورہ' بیت اللہ بے کراں مدح Ùˆ ثنا Ú©Û’ مستحق ہیں۔ زندگی بھر ان Ú©ÛŒ فکری کدووکاوش انہی موضوعات Ú©Û’ گرد گھومتی رہی۔ ان Ú©Û’ نزدیک یہ مختلف چیزیں نہیں بلکہ ایک حقیقت Ú©Û’ مختلف لباس اور رنگ ہیں۔
سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ تعریف Ùˆ توصیف Ú©Û’ سلسلے میں بھی انہوں Ù†Û’ ذرا مختلف پیرایہ اختیار کیا ہے آج نعت کا انداز تبدیل ہو گیا Û” اس وقت نعت سیرت Ùˆ کردار اور افکار Ú©Û’ حوالے سے Ù„Ú©Ú¾ÛŒ جارہی ہے۔ مگر خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ Ù†Û’ قدیم دبستان فکر میں رہتے ہوئے بھی اپنا راستہ الگ اختیار کیا Û” مثلاً ان Ú©ÛŒ نعت میں جو آ فاقیت' مقام محمدی علیہ الصلوۃ والسلام  تک عام انسانی عقل Ùˆ فہم یا ادراک Ú©ÛŒ نا رسائی اور بے چارگی' عظمت رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ سلسلے میں الفاظ اور خیال کا عجز اور درماندگی' اپنی خوردی' کمتری اور نفی پھر صرف ذات اقدس Ú©ÛŒ تعریف Ùˆ تو صیف Ú©Û’ حوالے سے اپنے احساس اور خودی کا حوالہ ایسا دلکش اور روح پرور انداز ہے کہ انسان اسے کوئی زبان نہیں دے سکتا۔ صرف وجدانی طور پر اس کا لطف Ù„Û’ سکتا ہے۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
 Image
گرچہ حسان نیستم سحباں نیم'  مدح او شیریں کند گفتار را
 Image
سرور دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی کے حوالے سے حقیقت محمدیہ کی بے کنرار عظمتوں کے حضور آپ علیہ الرحمتہ اپنا مجرا یوں پیش کرتے ہیں۔
 Image
 Ø­Ù‚یقت محمدی دی پا کوئی نئیں سگدا    اتھاں Ú†Ù¾ دی جا ہے الا کوئی نئیں سگدا
 Image
ما وشما تو اپنی جگہ رہے اس ذات اقدس کی شان دیکھیے
 Image
 Ø§Ø¨ÙˆØ¨Ú©Ø± Ùˆ فاروق Ùˆ عثمان حیدر     Ø§ÛŒÛÙˆ راز مشکل ڈسا کوئی نئیں سگدا
 Image
حقیقت الحقائق تک رسائی کی صورت یا راستہ کیا صرف ایک ہی راستہ ہے فرماتے ہیں۔
 Image
     حقیقت  دے پردے  پھڑیندے محمد
خدا  نال  ہک  تھی   Ø§Ù„یندے   Ù…حمد    
 Image
راقم السطور کے والد گرامی حضرت شاہ مغفور القادری جو خود انتہائی صاحب درد اور صاحب ذوق و نظر بزرگ تھے یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ اس طرح پڑھواتے تھے۔
 Image
     حقیقت  دے  پردے کھلیندے محمد
 Ø®Ø¯Ø§  نال  ہک   ØªÚ¾ÛŒ  الیندے  محمد   
 Image
سروردو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  Ú©ÛŒ ذات اقدس سے والہانہ محبت Ú©Û’ سلسلے میں خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ Ú©Û’ یہ چند اشعار سنائے بغیر رہا نہیں جاتا۔
 Image
 Ù…حمد      مصطفےٰ   Ø±Ø§Ø²   Ø®Ø¯Ø§  دی گال کیا  پچھدیں
تھیا  حق  نال  ہک  حق  دی  حقیقیت حال کیا  پچھدیں
ایندی  رفتار  توں  صدقے  ایندی  گفتار  توں   ØµØ¯Ù‚Û’
ایندے دیدار توں صدقے ایندے  خط  خال  کیا  پچھدیں
عبودیت   Ú©ÙˆÚº   Ø±Ù†Ú¯   Ù„ائیس  الوہت  Ú©ÙˆÚº  چمکائیس
تے  ہر  ہر  حال  ٹھمکائیس  مفصل  حال کیا  پچھدیں
 Image
جیسے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ کا ممدوح محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کیا یہ صرف کسی ایک وجود گرامی کا نام ۔ میرے خیال میں خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک یہ اسم گرامی حقیقت الحقائق' جان کائنات' روح تخلیق' حسن جہاں ' زینت آسمان' فخر لامکاں اور مقصود خلد بریں ہے آپ نے یہ مضمون اپنے مشہور شعر میں یوں ادا فرمایا ہے۔
 Image
    Ù†ÛŒØ³Øª جز مصطفےٰ مرا درکار
ہست   Ø¯Ø±  دوجہاں  محمد  یار    
 Image
خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کو کسی نعت گو شاعر کا باقاعدہ مقلد تو نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ان کے کلام میں برصغیر میں فاضل بریلوی شاہ احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ' علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ' اور پیر مہر علی شاہ ساحب گولڑوی کی نعتیہ شاعری کا معمولی فرق سے عکس صاف جھلکتا ہے۔ متذکرہ بالا تینوں بزرگ تلوار کی دھار پر چلے ہیں اور کمال ہوشیاری سے چلے ہیں جبکہ خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ جذب و مستی' حدت عشق اور وفور شوق میں کسی حد بندی کے قائل نہیں ہیں۔ مشہور بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ جو خواجہ محمدیار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کے شیخ طریقت ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مقتداء قرار دیئے جا سکتے ہیں اگرچہ خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ درد و فراق' اور جزوی طور پر وارد ہونے والے دکھ درد کے ایسے عدیم النظیر شاعر ہیں جن کی مثال میرے ناقص علم کے مطابق سوائے شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ کے برصغیر کی تاریخ میں پیش نہیں کی جا سکتی اور نہ اس سلسلے میں کوئی ان کا ثانی ہے۔
اثر انگیزی اور سخت سے سخت دلوں کو موم کر دینے کے اعتبار سے ہمارے دینی ادب میں غالباًمثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں ہے۔ بلاشبہ اسلام بالخصوص ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے عشق محبت کے ساتھ والہا نہ تعلق کا جو اثاثہ موجود ہے اس میں مثنوی مولانا روم علیہ الرحمتہ کا بڑا حصہ ہے۔
سخت نا انصافی ہو Ú¯ÛŒ اگر خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ Ú©Û’ تذکرے میں مثنوی کا ذکر نہ آئے' پیر غلام دستگیر نامی Ù†Û’ اایک جگہ لکھا ہے خواجہ محمدیار فریدی رحمتہ اللہ علیہ Ú©ÛŒ درد بھری آواز میں' میں Ù†Û’ مثنوی سنی تو مجھے مثنوی Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ کا شوق پیدا ہوا۔ عینی شاہدوں کا بیان ہے  خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ مثنوی Ú©Û’ اشعار ترنم سے پڑھتے جس طرح خود روتے اسی طرح ساری محفل Ú©Ùˆ رلاتے۔ بعض اوقات گریہ Ùˆ بکا Ú©ÛŒ یہ محفلیں ساری ساری رات جاری رہتیں اور جب لوگ ان پاکیزہ محافل سے رخصت ہوتے تو آنسووں Ú©ÛŒ لڑیوں سے اپنے گناہوں Ú©Û’ دفتر دھو کر وہ اپنے آپ Ú©Ùˆ انتہائی سبک بار محسوس کر رہے ہوتے۔
خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ Ú©Û’ وعظ Ùˆ تقریر کا جو انداز ہو بہو مثنوی کا تھا' حکایات' تمثیل' منظر نگاری' ہنسانا' رلانا' موعظمت Ùˆ عبرت یہ ساری باتیں ساتھ ساتھ چلتیں۔ مگر آپ علیہ الرحمتہ Ú©Û’ ہر قول Ùˆ فعل کا نتیجہ اور خلاصہ جز نغمہ محبت سازم تو اندارد' Ú©Û’ مطابق صرف اور صرف ذات سید المرسلین  صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوتی۔
خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ Ù†Û’ نصف صدی کا طویل عرصہ " پیغام یار" Ú©Ùˆ عام کرنے میں گزارا' اس دوران ان Ú©Û’ خلاف فتوÛ